Horror
all age range
2000 to 5000 words
Urdu
Story Content
کالی وادی ایک ایسا گاؤں تھا جہاں سورج کی روشنی بھی بمشکل پہنچتی تھی۔ پہاڑوں کے بیچ گھرا ہوا یہ گاؤں اپنی پراسرار فضا کے لیے مشہور تھا۔
لوگ کہتے تھے کہ اس وادی پر کسی پُرانی لعنت کا سایہ ہے، اور یہاں عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
گاؤں کے سارے لوگ رات ہوتے ہی اپنے گھروں میں دبک جاتے، کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اکیلے باہر نکل سکے۔
ساجد نامی ایک نوجوان شہر سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے آبائی گاؤں واپس آیا۔ وہ ان قصّوں اور کہانیوں پر یقین نہیں رکھتا تھا جو اس نے بچپن سے سنے تھے۔
ساجد نے گاؤں والوں کو ان توہمات سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا اور خود اس وادی کی حقیقت جاننے کی ٹھان لی۔
ایک رات، ساجد اکیلا وادی میں گھومنے نکلا۔ ہر طرف خاموشی تھی، جیسے وقت تھم گیا ہو۔
اچانک اسے دور سے ایک مدھم روشنی نظر آئی۔ وہ تجسس سے اس روشنی کی طرف بڑھنے لگا۔
روشنی ایک پرانی، خستہ حال عمارت سے آرہی تھی۔ عمارت کے دروازے پر ایک دھندلا سا سایہ نظر آیا۔
ساجد ڈرتے ڈرتے عمارت کے قریب پہنچا اور دروازہ کھولا۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ دہل گیا۔
عمارت کے اندر ایک بڑا کمرہ تھا جس میں کئی عجیب و غریب چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ دیواروں پر عجیب نشانات بنے ہوئے تھے۔
کمرے کے بیچ میں ایک میز پڑی تھی جس پر ایک پُرانی کتاب رکھی تھی۔ ساجد نے کتاب اٹھائی اور اس کے ورق الٹنے لگا۔
کتاب میں وادی کی پُرانی تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ اس میں ایک ایسی لعنت کا ذکر تھا جو ایک ظالم حاکم نے اپنی موت سے پہلے اس وادی پر ڈالی تھی۔
ساجد کو احساس ہوا کہ گاؤں والوں کی باتیں سچ ہیں، اس وادی پر واقعی کسی چیز کا سایہ ہے۔
اسی دوران اسے کمرے کے ایک کونے سے ایک آہٹ سنائی دی۔ وہ گھبرا کر ادھر دیکھنے لگا۔
کونے میں ایک مجسمہ رکھا ہوا تھا جس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ ساجد کو محسوس ہوا جیسے مجسمہ اسے گھور رہا ہو۔
اچانک مجسمہ حرکت میں آیا اور ساجد کی طرف بڑھنے لگا۔ ساجد کے اوسان خطا ہو گئے۔
وہ تیزی سے کمرے سے باہر بھاگا اور اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔ مجسمہ اس کے پیچھے لگا رہا۔
ساجد گاؤں کی طرف بھاگا، لیکن مجسمہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔
آخر کار ساجد اپنے گھر پہنچا اور دروازہ بند کر لیا۔ مجسمہ دروازے کے باہر کھڑا تھا۔
ساجد نے گھر کی کھڑکی سے دیکھا تو مجسمہ غائب ہو چکا تھا۔ اس نے سکون کا سانس لیا۔
اگلی صبح ساجد نے گاؤں والوں کو اس عمارت اور اس مجسمے کے بارے میں بتایا۔ لیکن کسی نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا۔
لوگوں نے کہا کہ ساجد کو وہم ہو رہا ہے۔ ساجد جانتا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے، لیکن وہ کسی کو اپنی بات پر قائل نہیں کر سکا۔
ساجد نے فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ اس عمارت میں جائے گا اور اس لعنت کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔
اگلی رات ساجد دوبارہ اس عمارت میں گیا۔ اس بار وہ ہتھیار لے کر گیا تھا۔
عمارت کے اندر وہ مجسمہ وہیں کھڑا تھا جہاں اس نے اسے کل دیکھا تھا۔ مجسمہ کو دیکھتے ہی ساجد کا خون خشک ہو گیا۔
ساجد نے مجسمے پر حملہ کرنے کی کوشش کی، لیکن مجسمہ اس سے زیادہ طاقتور تھا۔
مجسمے نے ساجد پر وار کیا اور ساجد زمین پر گر گیا۔ اسے لگا جیسے اس کی جان نکل رہی ہو۔
جب ساجد کو ہوش آیا تو وہ اپنے گھر میں تھا۔ اس کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔
اس نے اپنے والدین کو اپنے خواب کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے ساجد کو آرام کرنے کا کہا۔
اگلے دن ساجد دوبارہ اس عمارت میں گیا، لیکن اس بار وہاں کچھ نہیں تھا۔ نہ مجسمہ تھا، نہ کوئی نشان۔
عمارت بالکل خالی تھی۔ ساجد حیران رہ گیا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔
ساجد نے گاؤں والوں کو اس بارے میں بتایا، لیکن انہوں نے پھر بھی اس کی بات پر یقین نہیں کیا۔
کچھ عرصے بعد ساجد نے محسوس کیا کہ وہ بیمار ہو رہا ہے۔ اس کی صحت بگڑنے لگی۔
ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ اسے کوئی لاعلاج بیماری ہے۔ ساجد سمجھ گیا کہ یہ اس لعنت کا اثر ہے۔
ساجد کو اپنی موت کا انتظار تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس وادی کی لعنت سے نہیں بچ سکتا۔
ایک رات ساجد اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ اسے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔
اس نے دیکھا کہ کمرے میں وہی مجسمہ کھڑا ہے۔ مجسمہ ساجد کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ساجد چیخنا چاہتا تھا، لیکن اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ مجسمہ اس کے قریب پہنچا اور اس پر حملہ کر دیا۔
اگلی صبح ساجد کی لاش اس کے بستر پر پڑی ہوئی ملی۔ گاؤں والے خوفزدہ ہو گئے۔
انہیں یقین ہو گیا کہ کالی وادی پر واقعی کسی لعنت کا سایہ ہے۔
لیکن کچھ لوگ آج بھی کہتے ہیں کہ ساجد کی روح آج بھی اس وادی میں بھٹکتی ہے، اور وہ اس لعنت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا وہ لعنت کبھی ٹوٹے گی، یہ راز کالی وادی کے سینے میں دفن ہے۔
آخرکار سچ کیا تھا یہ کوئی نہیں جانتا, کہانی آج بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے